امام شافعي رحمه الله كے اشعار ميں سے ايك شعر اس طرح هے:
لَمَّا عَفَوْتُ وَلَم أَحْقِدْ (۱) عَلَى أَحَدٍ — أَرَحْتُ نَفْسِيَ مِنْ غَمِّ الْعَدَاوَاتِ
جب ميں نے معاف كرديا اور كسي سے حِقد (كينه) نهيں ركھا تو ميں نے اپنے آپ كو عداوتوں كے غم سے راحت ديدي۔ [مناقب الشافعي للبيهقي (2/ 87)]
حقد كے معنى دل ميں دشمني برقرار ركھنے اور موقع كي تلاش ميں رهنے كے هيں۔
دنيا ميں كبھي ديني تو كبھي دنيوي اسباب كي بنا پر دو لوگوں كے درميان اختلاف اور ناراضگي پيدا هوجاتي هے۔ يه ايك طبيعي امر هے۔ يه زندي كا معمول هے جس سے كوئي بھي شخص مستثنىٰ نهيں۔ مزاج اور سوچ كا فرق اختلاف ِرائے كا ذريعه بنتا هے اور كبھي رايوں كا يه اختلاف بڑھ كر دشمني اور جھگڑے كي صورت اختيار كرليتا هے۔
انسان كي فطرت ميں سكون وچين كي طلب پيوست هے۔ ليكن باهمي عداوتيں اس سكون كو ختم كرديتي هيں۔ يه انسان سے اسكے احساسِ امن كو چھين كر اسے انديشوں ميں مبتلا كرديتي هيں۔ وه هر وقت اپنے آپ كو خطره ميں محسوس كرنے لگتا هے۔ اس كا ذهن هر وقت اپنے حريف كي سرگرميوں اور ان سے اپنے بچاؤ كي فكر ميں پھنسا رهتا هے۔ اپنے تحفظ كا احساس بعض اوقات خود اسے بھي مكر وفريب، اخلاقي بے اصوليوں بلكه سركشي كے راستے پر ڈال ديتا هے۔ وه مخالف كے ساتھ جوابي مقابله آرائي ميں خود بھي اخلاقي گراوٹ كا شكار هوجاتا هے۔ دھيرے دھيرے وه خود اپني نگاه ميں بھي مجرم بن كر ره جاتا هے۔ يه احساسِ جرم اور يه ندامت اسے مخالف كي اذيتوں سے بھي زياده غمگين كرنے لگتي هيں۔
ايك عقلمند آدمي تنزل كے اِس پُر فريب راستے پر نهيں چلتا۔ بلكه وه اپنے آپ كو حريف كي سطح سے اوپر اٹھا كر جيتا هے۔ اگر اس كے ليے ممكن هو تو وه دشمني كي اس آگ كو پهلے هي مرحله ميں معافي اور درگزر كے ذريعه بجھا ديتا هے۔ وه اپني اعلىٰ ظرفي اور بلند اخلاق كے ذريعه اپنے دشمن كو بھي شرمنده كرديتا هے اور اكثر اسے اپنا دوست بناليتا هے۔ يه چيز اسے اسكے فكروغم اور دشمني كے نقصانات دونوں سے محفوظ كر ديتي هے۔
(۱) الحِقْدُ: إِمساك الْعَدَاوَةِ فِي الْقَلْبِ وَالتَّرَبُّصُ لِفُرْصَتِها. [لسان العرب (3/ 154)]