ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ تَخْرُبُ صُدُورُهُمْ مِنَ الْقُرْآنِ وَلَا يَجِدُونَ لَهُ حَلَاوَةً وَلَا لَذَاذَةً إِنْ قَصَّرُوا عَمَّا أُمِرُوا بِهِ قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ، وَإِنْ عَمِلُوا بِمَا نُهُوا عَنْهُ قَالُوا: سَيَغْفِرُ لَنَا إِنَّا لَمْ نُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، أَمْرُهُمْ كُلُّهُ طَمَعٌ لَيْسَ مَعَهُ صِدْقٌ يَلْبَسُونَ جُلُودَ الضَّأْنِ عَلَى قُلُوبِ الذِّئَابِ، أَفْضَلُهُمْ فِي دِينِهِ الْمُدَاهِنُ.
فرماتے هيں: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ان کے دل قرآن سے خالی ہوجائیں گے۔ انھیں قرآن میں نہ حلاوت محسوس ہوگی نہ لذت۔ جب ان سے (اللہ تعالیٰ کے) اوامر میں کوتاہی ہوگی تو کہیں گے: اللہ غفورٌ رحیم ہے؛ اور جب وہ ممنوعات کا ارتکاب کریں گے تو کہیں گے: ہماری مغفرت ہوجائے گی کیونکہ ہم نے کبھی اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ ان کے پاس محض تمنائیں ہوں گی جو صدقِ طلب سے عاری ہوں گی۔ بھیڑیے نما دلوں کو انھوں نے بھیڑ کی کھالوں میں چھپا رکھا ہوگا۔ ان میں سب سے زیادہ دیندار وہ سمجھا جائے گا جو مداہنت میں ماہر ہو۔ [الزهد لأحمد بن حنبل 1741]
قرآن ایک نصیحت ہے۔ قرآن انسان کو حقیقت کا آئینہ دکھاتا ہے۔ اس آئینہ میں انسان کو اپنی دینداری کی حقیقی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی حلاوت اسی شخص کو محسوس ہو سکتی ہے جسکے دل میں نصیحت قبول کرنے کا مزاج ہو۔ جسے اپنی کمیوں کا اعتراف ہو اور ان کمیوں کے دور کرنے کی فکر بھی ہو۔جو قرآن کے وعظ ونصیحت کے ذریعہ اپنے دل کو بیدار کرنے کی تڑپ رکھتا ہو ۔ اپنے اوپر تنقید کو بھی وہ ترقی کا ذریعہ مان کر سنتا ہو۔
لیکن جب بعد کا دور آئے گا تو لوگوں کے دلوں سے اپنی اصلاح کی فکر نکل جائے گی۔ وہ محض رسمی طور پر قرآن پڑھیں گے۔ انھیں قرآن کی تلاوت میں لذت محسوس نہیں ہوگی۔
اللہ کے اوامر ونواہی کے سلسلہ میں وہ پست ہمتی کو اپنا شیوہ بنالیں گے۔ وہ دوامِ طاعت کی بجائے کسی ایک ہی نیکی پر تکیہ کرلینے کو کافی سمجھیں گے۔ اللہ کی رحمت اور توحید کی فضیلت کی آڑ میں اپنی بے عملی اور سیاہ کاریوں کو چھپانا ان کے نزدیک عیب نہیں ہوگا۔
وہ مجاہدہ اور پرہیزگاری کی بجائے محض تمناؤں پر تکیہ کرنے کو نجات کا ذریعہ سمجھنے لگیں گے۔ جنت اور مغفرت کے مواقع ضائع کرنا ان کی زندگی کا معمول بن جائے گا۔ ان کی طلب اور تمناؤں میں سچائی نہ ہوگی جو انھیں مطلوب کے حصول کی طرف چلنے پر آمادہ کرسکے۔
ان کی دینداری محض دنیا کے لیے ہوگی۔ وہ چالاکی اور مکر وفریب ہی کو عقلمندی شمار کریں گے۔ ان کا مقصود اللہ کی رضا کی بجائے مخلوق کی مداہنت اور خوشامد ہوگا۔ وہ آخرت کی بجائے دنیا کے لیے اور مقصد کی بجائے مفاد کے لیے جینے والے بن جائیں گے۔